امریکہ اور اس کی’’ جمہوریت گردی‘‘
تحریر راحیل گجر پیرمحل
امریکہ نے اپنے استعماری عزائم کی تکمیل کے لئے دنیا میں اپنے انداز اور اپنی مرضی کی جمہوریت کے قیام کے لئے کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ امریکہ کی ’’جمہوریت گردی‘‘ کی وجہ سے لاکھوں بے گناہ اور معصوم لوگ خاص طور پر عراق اور افغانستان کے مسلمان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ اگر کوئی سیاسی جماعت قومی خزانے سے غریبان وطن پر کچھ خرچ کرتی ہے تو یقین کیجئے کہ یہ مفلوک الحال اور غریب لوگ اسے قرضہ سمجھ کر وصول کرتے ہیں۔
گویا حکومت انہیں قرض دے رہی ہو جو ایک دن لوٹانا بھی پڑے گا۔ غریب لوگوں کا ضمیر کچھ زیادہ ہی زندہ اور روشن ہوتا ہے۔ یہ لوگ آئندہ انتخابات میں اپنے ذمہ واجب الادا قرض ووٹوں کی صورت ادا کرتے ہیں۔ ووٹ ادا کرنے، معاف کیجئے گا اپنے ذمہ قرض ادا کرنے کے بعد یہ لوگ خود کو آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔ خیرات کس طرح ووٹوں میں تبدیل ہوتی ہے اور قرض کیونکہ ادا ہو جاتا ہے یہ ایک سیاسی معمہ ہے، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔
ظاہر بات ہے کہ ووٹوں کی خریدو فروخت کی قانونی طور پر اجازت نہیں ہو سکتی لیکن ووٹ کی خریداری صرف اسی صورت میں غیر قانونی ہوتی ہے جب آپ ووٹ اپنے پیسوں سے خریدتے ہیں لیکن اگر آپ حکومت میں اور قومی خزانے کے چھلکتے ہوئے پیمانے سے چند قطرے غریبوں کے چلو میں ڈال دیتے ہیں اور غریب عالمی سر مستی میں اپنے ووٹ آپ کے قدموں میں نچھاور کر دیتے ہیں تو یہ کام غیر قانونی ہرگز نہیں بنتا۔ایسے جمہوری ممالک میں جہاں اکثریت غریبوں پر مشتمل ہو وہاں جمہوریت ننگی آمریت بن جاتی ہے۔ غریب ملک میں جمہوریت اسی طرح پھلتی پھولتی ہے جس طرح متعفن لاشوں پر گدھ پلتے ہیں۔
زیادہ تر جمہوری ممالک کے عوام خط افلاس سے میلوں نیچے اور حکمران خط تو نگری سے میلوں اوپر زندگی بسر کرتے ہیں۔ بر اعظم افریقہ کے کئی جمہوری ممالک میں ہر برس لاکھوں بچے فاقوں سے مر جاتے ہیں۔ ان بچوں کی اصل قاتل بھوک نہیں بلکہ جمہوریت ہوتی ہے۔ جمہوریت صرف حکمرانوں ہی کو ر اس آتی ہے۔جمہوریت محض ایک شرط پر قومی ذرائع اور دولت حکمرانوں کے سپرد کر دیتی ہے کہ اس کو خرچ کرکے حکمراں ایسا انداز زندگی اپنائیں کہ بڑے سے بڑا شاہزادہ بھی شرما جائے اور غریب جمہوری ممالک کے حکمران انتہائی سعادت مند ی کا ثبوت دیتے ہوئے اس شرط پر حرف بحرف عمل کرتے ہیں۔
دورحاضر کے زیادہ جمہوری حکمران بھوکے پیٹوں کا مزید استحصال کر رہے ہیں۔ ان پیشہ ور حکمرانوں کی خوشحالی کا راز خالی پیٹ ہیں۔ سیاست دان ایک مٹھی بھر اناج کے عوض غریبوں کے ووٹ خرید لیتے ہیں۔ البتہ یہ کارو بار ان ممالک میں نہیں پنپ سکتا جہاں عوام کے پیٹ بھرے ہوئے ہوں۔ بھرے ہوئے پیٹ والے عوام کے حکمران یقیناًبھوکے پیٹ والے عوام کے حکمران سے حسد کرتے ہوں گے۔ حسد کا جذبہ بھی عجیب چیز ہے نا!
ایسے ملک میں جہاں عوام مفلوک الحال ہوں وہاں جمہوریت محض منافقت کا ہی دوسرا نام ہوتی ہے۔ جمہوریت کی یہ قسم ملوکیت ہی کا ایک روپ ہے لیکن ان میں بھی ایک فرق بہر حال موجود ہے۔ ماضی کی ملوکیت یورپ کی تخلیق تھی اور اس کی موجودگی بھی اس کی ایک فطری یا طبعی حالت ہے۔ ماضی میں اہل یورپ نے غیر یورپی ممالک کو جی بھر کر لوٹا۔جدیدملوکیت میں یو روپی راہزن اپنے ہی بھائی بندوں کو بھی لوٹ رہے ہیں۔ زیادہ تر جمہوری ممالک میں عوام کی حالت پتلی ہی ہے۔ ان کے پیٹ عوام کے عموماً خالی ہی رہتے ہیں۔ خالی پیٹ کا مطلب ہے خالی ذہن اور خالی ذہن جدید سیاست کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ خالی ذہن شخص کسی نو زائدہ بچے کی طرح معصوم ہوتا ہے اور اس کی اس معصومیت کا پیشہ ور سیاستدان بھر پوراور نا جائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدانوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ بھوکے پیٹ مزید بھوکے ہو جائیں۔
امریکہ نے جمہوریت کی ایک نئی قسم کی تخلیق کی ہے۔ اسے عسکری جمہوریت کا نام دیا جا سکتا ہے۔ امریکہ نے اپنے مطلب کی جمہوریت عراق پر مسلط کی اور اس جمہوریت کا نتیجہ خودکش حملوں کی صورت برآمد ہوا۔ ان خودکش حملوں نے عراق کو عراقیوں کے خون سے سرخ کر دیا۔ اس جمہوریت گردی کا نشانہ کتنے عراقی بنے یہ ابھی تک ایک راز ہے اور شاید راز ہی رہے گا۔ عراق کے لئے جمہوریت ہی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والا ہتھیارWeapon of mass destruction ثابت ہوئی ہے
No comments:
Post a Comment